چلو پھر قوم بن جا یں
لٹیرا حکمراں اپنا
وطن کا خون چوسے ھے
مگر خاموش ھیں سارے
مقدر جن کا مقتل ھے
سروں پہ وہ مسلط ھیں
ھمارے دوش ھیں سارے
جو جاھل ھیں لٹیرے ھیں
وطن کے وہ وڈیرے ھیں
جو قاتل اپنے رشتوں کے
وہ تیرے ھیں نہ میرے ھیں
خدا نے یہ سزا دی ھے
ھمیں اپنے گناہوں کی
نہ نعرے کام آتے ھیں
نہ کوی وقعت ھے آھوں کی
شرم ان کو نھیں آتی
جو تقریروں میں یہ کہتے ھیں
یہ لوگوں کی حکومت ھے
مگر کب فیصلہ کوی
ہوا لوگوں کی مرضی کا
کہیں بجلی نہیں ملتی
کہیں پر بھوک پلتی ھے
امن کیسا دیا تم نے
کہ ھر سو گولی چلتی ھے
سنو اے دیس کے لوگو
بڑی عینک ھٹانے سے
یا پھر مونچھیں گھٹانے سے
کبھی کردار بھی بدلا ھے؟
تو کیوں پھر سوچ میں گم ھو
وطن بھی یہ تمھارا ھے
وطن کی آس بھی تم ھو
زرا ماضی میں جھانکیں تو
ھمیں احساس ھو شاید
کہ ھم اک قوم تھے لیکن
اب تو سبھی افراد بن بیٹھے
اے میرے لوگو
خدا کے واسطے سارے
چلو پھر قوم بن جایئں
یہ تاریخ لکھتی ھے
کے قومیں ان لٹیروں کو
جو ان کو لوٹنا چاھیں
کبھی عزت نہیں دیتیں
کچل دیتی ھیں پاوں میں
اے میرے وطن کے لوگو
چلو پھر قوم بن جایں
وطن نے یہ پکارا ھے-